EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بھاری بوجھ پہاڑ سا کچھ ہلکا ہو جائے
جب میری چنتا بڑھے ماں سپنے میں آئے

اختر نظمی




چھیڑ چھاڑ کرتا رہا مجھ سے بہت نصیب
میں جیتا ترکیب سے ہارا وہی غریب

اختر نظمی




جیون بھر جس نے کئے اونچے پیڑ تلاش
بیری پر لٹکی ملی اس چڑیا کی لاش

اختر نظمی




کھول دیے کچھ سوچ کر سب پنجروں کے دوار
اب کوئی پنچھی نہیں اڑنے کو تیار

اختر نظمی




لوٹا گیہوں بیچ کر اپنے گاؤں کسان
بٹیا گڑیا سی لگی پتنی لگی جوان

اختر نظمی




مری طرف سے تو ٹوٹا نہیں کوئی رشتہ
کسی نے توڑ دیا اعتبار ٹوٹ گیا

اختر نظمی




ناؤ کاغذ کی چھوڑ دی میں نے
اب سمندر کی ذمہ داری ہے

اختر نظمی