EN हिंदी
اندیشے مجھے نگل رہے ہیں | شیح شیری
andeshe mujhe nigal rahe hain

غزل

اندیشے مجھے نگل رہے ہیں

اختر رضا سلیمی

;

اندیشے مجھے نگل رہے ہیں
کیوں درد ہی پھول پھل رہے ہیں

دیکھو مری آنکھ بجھ رہی ہے
دیکھو مرے خواب جل رہے ہیں

اک آگ ہماری منتظر ہے
اک آگ سے ہم نکل رہے ہیں

جسموں سے نکل رہے ہیں سائے
اور روشنی کو نگل رہے ہیں

یہ بات بھی لکھ لے اے مؤرخ
ملبے سے قلم نکل رہے ہیں