کس قدر تند بھری ہے مرے پیمانے میں
کہ چھڑک دوں تو لگے آگ ابھی میخانے میں
وحید الدین سلیم
کس قدر تند بھری ہے مرے پیمانے میں
کہ چھڑک دوں تو لگے آگ ابھی میخانے میں
وحید الدین سلیم
آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے
یہ میسر ہو تو پھر کیوں کوئی ناشاد رہے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
آغاز سے ظاہر ہوتا ہے انجام جو ہونے والا ہے
انداز زمانہ کہتا ہے پوری ہو تمنا مشکل ہے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
آغاز سے ظاہر ہوتا ہے انجام جو ہونے والا ہے
انداز زمانہ کہتا ہے پوری ہو تمنا مشکل ہے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
ابھی ہوتے اگر دنیا میں داغؔ دہلوی زندہ
تو وہ سب کو بتا دیتے ہے وحشتؔ کی زباں کیسی
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
اے اہل وفا خاک بنے کام تمہارا
آغاز بتا دیتا ہے انجام تمہارا
وحشتؔ رضا علی کلکتوی