درد آ کے بڑھا دو دل کا تم یہ کام تمہیں کیا مشکل ہے
بیمار بنانا آساں ہے ہر چند مداوا مشکل ہے
الزام نہ دیں گے ہم تم کو تسکین میں کوئی کی نہ کمی
وعدہ تو وفا کا تم نے کیا کیا کیجئے ایفا مشکل ہے
دل توڑ دیا تم نے میرا اب جوڑ چکے تم ٹوٹے کو
وہ کام نہایت آساں تھا یہ کام بلا کا مشکل ہے
آغاز سے ظاہر ہوتا ہے انجام جو ہونے والا ہے
انداز زمانہ کہتا ہے پوری ہو تمنا مشکل ہے
موقوف کرو اب فکر سخن وحشتؔ نہ کرو اب ذکر سخن
جو کام کہ بے حاصل ٹھہرا دل اس میں لگانا مشکل ہے
غزل
درد آ کے بڑھا دو دل کا تم یہ کام تمہیں کیا مشکل ہے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی