EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کیوں شکوۂ بے مہرئ ساقی ہے لبوں پر
پینا ہے تو خود بڑھ کے پیو بادہ گسارو

واحد پریمی




میں اوروں کو کیا پرکھوں آئنۂ عالم میں
محتاج شناسائی جب اپنا ہی چہرا ہے

واحد پریمی




میں اوروں کو کیا پرکھوں آئنۂ عالم میں
محتاج شناسائی جب اپنا ہی چہرا ہے

واحد پریمی




میری دیوانگئ عشق ہے اک درس جہاں
میرے گرنے سے بہت لوگ سنبھل جاتے ہیں

واحد پریمی




نہ پوچھئے کہ شب ہجر ہم پہ کیا گزری
تمام رات جلے شمع انجمن کی طرح

واحد پریمی




نہ پوچھئے کہ شب ہجر ہم پہ کیا گزری
تمام رات جلے شمع انجمن کی طرح

واحد پریمی




راہ طلب کی لاکھ مسافت گراں سہی
دنیا کو میں جہاں بھی ملا تازہ دم ملا

واحد پریمی