وفائے دوستاں کیسی جفائے دشمناں کیسی
نہ پوچھا ہو کسی نے جس کو اس کی داستاں کیسی
کچھ ایسا احترام درد الفت ہے مرے دل کو
خموشی حکمراں ہے آہ و فریاد و فغاں کیسی
کسی کو فکر آزادی نہیں اس قید رنگیں سے
دل عالم پہ ہے چھائی ہوئی مہر بتاں کیسی
بھلا ہی دیتے ہیں اس کو جو گزرا بزم عالم سے
ہے سب کو اپنی اپنی فکر یاد رفتگاں کیسی
تمہارا مدعا ہی جب سمجھ میں کچھ نہیں آیا
تو پھر مجھ پر نظر ڈالی یہ تم نے مہرباں کیسی
ابھی ہوتے اگر دنیا میں داغؔ دہلوی زندہ
تو وہ سب کو بتا دیتے ہے وحشتؔ کی زباں کیسی
غزل
وفائے دوستاں کیسی جفائے دشمناں کیسی
وحشتؔ رضا علی کلکتوی