رواں دواں سوئے منزل ہے قافلہ کہ جو تھا
وہی ہنوز ہے یک دشت فاصلہ کہ جو تھا
نشاط گوش سہی جل ترنگ کی آواز
نفس نفس ہے اک آشوب کربلا کہ جو تھا
گیا بھی قافلہ اور تجھ کو ہے وہی اب تک
خیال زاد سفر فکر راحلہ کہ جو تھا
وہ آئے جاتا ہے کب سے پر آ نہیں جاتا
وہی صدائے قدم کا ہے سلسلہ کہ جو تھا
غزل
رواں دواں سوئے منزل ہے قافلہ کہ جو تھا
عرفی آفاقی