EN हिंदी
رواں دواں سوئے منزل ہے قافلہ کہ جو تھا | شیح شیری
rawan dawan su-e-manzil hai qafila ki jo tha

غزل

رواں دواں سوئے منزل ہے قافلہ کہ جو تھا

عرفی آفاقی

;

رواں دواں سوئے منزل ہے قافلہ کہ جو تھا
وہی ہنوز ہے یک دشت فاصلہ کہ جو تھا

نشاط گوش سہی جل ترنگ کی آواز
نفس نفس ہے اک آشوب کربلا کہ جو تھا

گیا بھی قافلہ اور تجھ کو ہے وہی اب تک
خیال زاد سفر فکر راحلہ کہ جو تھا

وہ آئے جاتا ہے کب سے پر آ نہیں جاتا
وہی صدائے قدم کا ہے سلسلہ کہ جو تھا