EN हिंदी
پھر کیا جو پھوٹ پھوٹ کے خلوت میں روئیے | شیح شیری
phir kya jo phuT phuT ke KHalwat mein roiye

غزل

پھر کیا جو پھوٹ پھوٹ کے خلوت میں روئیے

عرفی آفاقی

;

پھر کیا جو پھوٹ پھوٹ کے خلوت میں روئیے
یکسر جہان ہی کو نہ جب تک ڈبوئیے

دیوانہ وار ناچیے ہنسئے گلوں کے ساتھ
کانٹے اگر ملیں تو جگر میں چبھوئیے

آنسو جہاں بھی جس کی بھی آنکھوں میں دیکھیے
موتی سمجھ کے رشتۂ جاں میں پروئیے

ہر صبح اک جزیرۂ نو کی تلاش میں
ساحل سے دور شورش طوفاں کے ہوئیے