پھر کیا جو پھوٹ پھوٹ کے خلوت میں روئیے
یکسر جہان ہی کو نہ جب تک ڈبوئیے
دیوانہ وار ناچیے ہنسئے گلوں کے ساتھ
کانٹے اگر ملیں تو جگر میں چبھوئیے
آنسو جہاں بھی جس کی بھی آنکھوں میں دیکھیے
موتی سمجھ کے رشتۂ جاں میں پروئیے
ہر صبح اک جزیرۂ نو کی تلاش میں
ساحل سے دور شورش طوفاں کے ہوئیے
غزل
پھر کیا جو پھوٹ پھوٹ کے خلوت میں روئیے
عرفی آفاقی