صبا سے آتی ہے کچھ بوئے آشنا مجھ کو
بلا رہا ہے مرے خوں کا ذائقہ مجھ کو
ہنوز صفحۂ ہستی پہ ہوں میں حرف غلط
کوئی ہنوز ہے لکھ لکھ کے کاٹتا مجھ کو
ہزار چہرہ طلسم گریز پا ہوں میں
اسیر کر نہ سکا کوئی آئنا مجھ کو
چلا ہی جاؤں میں پرچھائیوں کے دیس کو اور
پکارتا رہے کرنوں کا قافلہ مجھ کو
یہی ہیں رتجگے جب سے کھلیں مری آنکھیں
نہ تھا وہ خواب مرا اک عذاب تھا مجھ کو
چلا تھا میں تو سمندر کی تشنگی لے کر
ملا یہ کیسا سرابوں کا سلسلہ مجھ کو
یہ بات کس سے کہوں آہ اک گل خوبی
بڑے ہی پیار سے کانٹا چبھو گیا مجھ کو
غزل
صبا سے آتی ہے کچھ بوئے آشنا مجھ کو
عرفی آفاقی