EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

مسافروں سے محبت کی بات کر لیکن
مسافروں کی محبت کا اعتبار نہ کر

عمر انصاری




طاری ہے ہر طرف جو یہ عالم سکوت کا
طوفاں کا پیش خیمہ سمجھ خامشی نہیں

عمر انصاری




اس اک دئیے سے ہوئے کس قدر دئیے روشن
وہ اک دیا جو کبھی بام و در میں تنہا تھا

عمر انصاری




اس اک دئیے سے ہوئے کس قدر دئیے روشن
وہ اک دیا جو کبھی بام و در میں تنہا تھا

عمر انصاری




اٹھا یہ شور وہیں سے صداؤں کا کیوں کر
وہ آدمی تو سنا اپنے گھر میں تنہا تھا

عمر انصاری




وہی دیا کہ تھیں عاجز ہوائیں جن سے عمرؔ
کسی کے پھر نہ جلائے جلا بجھا ایسا

عمر انصاری




وہی دیا کہ تھیں عاجز ہوائیں جن سے عمرؔ
کسی کے پھر نہ جلائے جلا بجھا ایسا

عمر انصاری