EN हिंदी
ہر اک کا درد اسی آشفتہ سر میں تنہا تھا | شیح شیری
har ek ka dard usi aashufta-sar mein tanha tha

غزل

ہر اک کا درد اسی آشفتہ سر میں تنہا تھا

عمر انصاری

;

ہر اک کا درد اسی آشفتہ سر میں تنہا تھا
وہ ایک شخص جو سارے نگر میں تنہا تھا

وہ آدمی بھی جسے جان انجمن کہیے
چلا جب اٹھ کے تو سارے سفر میں تنہا تھا

جو تیر آیا گلے مل کے دل سے لوٹ گیا
وہ اپنے فن میں میں اپنے ہنر میں تنہا تھا

اس اک دئیے سے ہوئے کس قدر دئیے روشن
وہ اک دیا جو کبھی بام و در میں تنہا تھا

سنا ہے لٹ گیا کل رات راستے میں کہیں
جو ایک رہ گزری رہ گزر میں تنہا تھا

اٹھا یہ شور وہیں سے صداؤں کا کیوں کر
وہ آدمی تو سنا اپنے گھر میں تنہا تھا

ہر اک میں کوئی کمی تھی ہر اک میں تھا کوئی عیب
دھلا ہوا وہی بس آب زر میں تنہا تھا

نہ پا سکا کبھی تا عمر لطف تنہائی
عمر جو سارے جہاں کی نظر میں تنہا تھا