EN हिंदी
شہر کا شہر صلیبوں سے سجا ہے اب کے | شیح شیری
shahr ka shahr salibon se saja hai ab ke

غزل

شہر کا شہر صلیبوں سے سجا ہے اب کے

اختر لکھنوی

;

شہر کا شہر صلیبوں سے سجا ہے اب کے
ان کی آمد کا ہر انداز نیا ہے اب کے

قافلہ قافلہ مقتل کی طرف جائیں گے لوگ
شوخ پہلے سے بہت رنگ حنا ہے اب کے

یہ تو سچ ہے وہ اسی راہ سے گزریں گے مگر
کوئی دیکھے نہ انہیں حکم ہوا ہے اب کے

آؤ جی بھر کے گلے مل لیں رفیقو ہم آج
قتل کی شکل میں انعام وفا ہے اب کے

موسم گل ترے صدقے تری آمد کے نثار
دیکھ مجھ سے مرا سایہ بھی جدا ہے اب کے

ایک قطرہ نہیں دیتی ہے گزر جاتی ہے
جو بھی اٹھتی ہے گھٹا ایسی گھٹا ہے اب کے

دوستو ذکر رخ یار سے غافل نہ رہو
دشت ظلمات میں مہتاب لٹا ہے اب کے