شہر کا شہر صلیبوں سے سجا ہے اب کے
ان کی آمد کا ہر انداز نیا ہے اب کے
قافلہ قافلہ مقتل کی طرف جائیں گے لوگ
شوخ پہلے سے بہت رنگ حنا ہے اب کے
یہ تو سچ ہے وہ اسی راہ سے گزریں گے مگر
کوئی دیکھے نہ انہیں حکم ہوا ہے اب کے
آؤ جی بھر کے گلے مل لیں رفیقو ہم آج
قتل کی شکل میں انعام وفا ہے اب کے
موسم گل ترے صدقے تری آمد کے نثار
دیکھ مجھ سے مرا سایہ بھی جدا ہے اب کے
ایک قطرہ نہیں دیتی ہے گزر جاتی ہے
جو بھی اٹھتی ہے گھٹا ایسی گھٹا ہے اب کے
دوستو ذکر رخ یار سے غافل نہ رہو
دشت ظلمات میں مہتاب لٹا ہے اب کے
غزل
شہر کا شہر صلیبوں سے سجا ہے اب کے
اختر لکھنوی