EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کچھ اس طرح کے بہاروں نے گل کھلائے ہیں
کہ اب تو فصل بہاراں سے ڈر لگے ہے مجھے

اختر مسلمی




لذت درد ملی جرم محبت میں اسے
وہ سزا پائی ہے دل نے کہ خطا جھوم اٹھی

اختر مسلمی




میرے کردار میں مضمر ہے تمہارا کردار
دیکھ کر کیوں مری تصویر خفا ہو تم لوگ

اختر مسلمی




مرے دل پہ ہاتھ رکھ کر مجھے دینے والے تسکیں
کہیں دل کی دھڑکنوں سے تجھے چوٹ آ نہ جائے

اختر مسلمی




مجھ کو منظور نہیں عشق کو رسوا کرنا
ہے جگر چاک مگر لب پہ ہنسی ہے اے دوست

اختر مسلمی




رہ وفا میں لٹا کر متاع قلب و جگر
کیا ہے تیری محبت کا حق ادا میں نے

اختر مسلمی




صبر و قرار دل مرے جانے کہاں چلے گئے
بچھڑے ہوئے نہ پھر ملے ایسے ہوئے جدا کہ بس

اختر مسلمی