کچھ اس طرح کے بہاروں نے گل کھلائے ہیں
کہ اب تو فصل بہاراں سے ڈر لگے ہے مجھے
اختر مسلمی
لذت درد ملی جرم محبت میں اسے
وہ سزا پائی ہے دل نے کہ خطا جھوم اٹھی
اختر مسلمی
میرے کردار میں مضمر ہے تمہارا کردار
دیکھ کر کیوں مری تصویر خفا ہو تم لوگ
اختر مسلمی
مرے دل پہ ہاتھ رکھ کر مجھے دینے والے تسکیں
کہیں دل کی دھڑکنوں سے تجھے چوٹ آ نہ جائے
اختر مسلمی
مجھ کو منظور نہیں عشق کو رسوا کرنا
ہے جگر چاک مگر لب پہ ہنسی ہے اے دوست
اختر مسلمی
رہ وفا میں لٹا کر متاع قلب و جگر
کیا ہے تیری محبت کا حق ادا میں نے
اختر مسلمی
صبر و قرار دل مرے جانے کہاں چلے گئے
بچھڑے ہوئے نہ پھر ملے ایسے ہوئے جدا کہ بس
اختر مسلمی