EN हिंदी
یہ محبت کی جوانی کا سماں ہے کہ نہیں | شیح شیری
ye mohabbat ki jawani ka saman hai ki nahin

غزل

یہ محبت کی جوانی کا سماں ہے کہ نہیں

اختر انصاری اکبرآبادی

;

یہ محبت کی جوانی کا سماں ہے کہ نہیں
اب مرے زیر قدم کاہکشاں ہے کہ نہیں

دامن رند بلا نوش کو دیکھ اے ساقی
پرچم خواجگئ کون و مکاں ہے کہ نہیں

مسکراتے ہوئے گزرے تھے ادھر سے کچھ لوگ
آج پر نور گذر گاہ‌ زماں ہے کہ نہیں

حسن ہی حسن ہے گلزار جنوں میں رقصاں
عشق کا عالم صد رنگ جواں ہے کہ نہیں

راہ پر آ ہی گئے آج بھٹکنے والے
راہبر دیکھ وہ منزل کا نشاں ہے کہ نہیں

لاکھ گرداب و تلاطم سے گزر کر اے دوست
اب سفینہ مرا ساحل پہ رواں ہے کہ نہیں

تذکرے اپنے ہر اک بزم میں ہیں اے اخترؔ
آج مہمل سی حدیث دگراں ہے کہ نہیں