کوشش پیہم کو سعیٔ رائیگاں کہتے رہو
ہم چلے اب تم ہماری داستاں کہتے رہو
گفتنی باتیں سہی نا گفتنی باتیں سہی
چپ نہ بیٹھو کوئی افسانہ یہاں کہتے رہو
مصلحت کیا بات جو حق ہی وہ کہہ دو برملا
لاکھ ہوں احباب تم سے بد گماں کہتے رہو
ہم کہ تھے آزاد آزادی کی خاطر مر گئے
جینے والو تم قفس کو آشیاں کہتے رہو
صرف کہنے سے زمیں کیا آسماں ہو جائے گی
کچھ نہیں ہوگا زمیں کو آسماں کہتے رہو
راہ کیا منزل ہے کیسی ہر حقیقت ہے فریب
کارواں کو بھی غبار کارواں کہتے رہو
کیوں کرو اخترؔ کی باتیں وہ تو اک دیوانہ ہے
تم تو یارو اپنی اپنی داستاں کہتے رہو
غزل
کوشش پیہم کو سعیٔ رائیگاں کہتے رہو
اختر انصاری اکبرآبادی