سہارا دے نہیں سکتے شکستہ پاؤں کو
ہٹاؤ راہ محبت سے رہنماؤں کو
بنا رہا ہوں حسیں اور مہ لقاؤں کو
سجا رہا ہوں میں آفاق کی فضاؤں کو
نظر نظر سے ملاتا ہوں مسکراتا ہوں
جنوں کی شان دکھاتا ہوں دل رباؤں کو
قدم قدم پہ نئے انقلاب رقصاں ہیں
دعائیں دیتے ہیں ہم آپ کی اداؤں کو
ملا جو دامن ساحل تو ایسی موج آئی
سفینے سونپ دئیے ہم نے ناخداؤں کو
نگاہ پھیرنے والوں سے پوچھتا ہوں میں
تم آزماؤ گے کب تک مری وفاؤں کو
ابھی تو دشت و دمن میں بہار آئی ہے
ابھی چمن میں کھلانے ہیں گل ہواؤں کو
چلے ہیں جانب دار و رسن خراباتی
گنہ کا رنگ دکھانا ہے پارساؤں کو
ہر ایک لمحۂ نو کا اب احترام کرو
نیا پیام دو اخترؔ نئی فضاؤں کو
غزل
سہارا دے نہیں سکتے شکستہ پاؤں کو
اختر انصاری اکبرآبادی