EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

فاصلہ رکھ کے بھی کیا حاصل ہوا
آج بھی اس کا ہی کہلاتا ہوں میں

شارق کیفی




فیصلے اوروں کے کرتا ہوں
اپنی سزا کٹتی رہتی ہے

شارق کیفی




گفتگو کر کے پریشاں ہوں کہ لہجے میں ترے
وہ کھلا پن ہے کہ دیوار ہوا جاتا ہے

شارق کیفی




گفتگو کر کے پریشاں ہوں کہ لہجے میں ترے
وہ کھلا پن ہے کہ دیوار ہوا جاتا ہے

شارق کیفی




ہیں اب اس فکر میں ڈوبے ہوئے ہم
اسے کیسے لگے روتے ہوئے ہم

شارق کیفی




ہو سبب کچھ بھی مرے آنکھ بچانے کا مگر
صاف کر دوں کہ نظر کم نہیں آتا ہے مجھے

شارق کیفی




جیسے یہ میز مٹی کا ہاتھی یہ پھول
ایک کونے میں ہم بھی ہیں رکھے ہوئے

شارق کیفی