دنیا شاید بھول رہی ہے
چاہت کچھ اونچا سنتی ہے
جب چادر سر سے اوڑھی ہے
موت سرہانے پر دیکھی ہے
اتنا سچا لگتا ہے وہ
دیکھو تو حیرت ہوتی ہے
قرب کی ساعت تو یاروں کو
چپ کرنے میں گزر جاتی ہے
آؤ گلے مل کر یہ دیکھیں
اب ہم میں کتنی دوری ہے
فیصلے اوروں کے کرتا ہوں
اپنی سزا کٹتی رہتی ہے
یگ بیتے دنیا میں آئے
سوچ وہی مہمانوں سی ہے
چلنا بھی اک عادت ہے بس
ساری تھکن آزادی کی ہے
غزل
دنیا شاید بھول رہی ہے
شارق کیفی