ایک مدت ہوئی گھر سے نکلے ہوئے
اپنے ماحول میں خود کو دیکھے ہوئے
ایک دن ہم اچانک بڑے ہو گئے
کھیل میں دوڑ کر اس کو چھوتے ہوئے
سب گزرتے رہے صف بہ صف پاس سے
میرے سینے پہ اک پھول رکھتے ہوئے
جیسے یہ میز مٹی کا ہاتھی یہ پھول
ایک کونے میں ہم بھی ہیں رکھے ہوئے
شرم تو آئی لیکن خوشی بھی ہوئی
اپنا دکھ اس کے چہرے پہ پڑھتے ہوئے
بس بہت ہو چکا آئنے سے گلہ
دیکھ لے گا کوئی خود سے ملتے ہوئے
زندگی بھر رہے ہیں اندھیرے میں ہم
روشنی سے پریشان ہوتے ہوئے
غزل
ایک مدت ہوئی گھر سے نکلے ہوئے
شارق کیفی