ہیں اب اس فکر میں ڈوبے ہوئے ہم
اسے کیسے لگے روتے ہوئے ہم
کوئی دیکھے نہ دیکھے سالہا سال
حفاظت سے مگر رکھے ہوئے ہم
نہ جانے کون سی دنیا میں گم ہیں
کسی بیمار کی سنتے ہوئے ہم
رہے جس کی مسیحائی میں اب تک
اسی کے چارہ گر ہوتے ہوئے ہم
گراں تھی سائے کی موجودگی بھی
اب اپنے آپ سے سہمے ہوئے ہم
کہاں ہیں خواب میں دیکھے جزیرے
نکل آئے کدھر بہتے ہوئے ہم
بڑھیں نزدیکیاں اس درجہ خود سے
کہ اب اس کا بدل ہوتے ہوئے ہم
رکھیں کیونکر حساب ایک ایک پل کا
بلا سے روز کم ہوتے ہوئے ہم
بہت ہمت کا ہے یہ کام شارقؔ
کہ شرماتے نہیں ڈرتے ہوئے ہم
غزل
ہیں اب اس فکر میں ڈوبے ہوئے ہم
شارق کیفی