EN हिंदी
انتہا تک بات لے جاتا ہوں میں | شیح شیری
intiha tak baat le jata hun main

غزل

انتہا تک بات لے جاتا ہوں میں

شارق کیفی

;

انتہا تک بات لے جاتا ہوں میں
اب اسے ایسے ہی سمجھاتا ہوں میں

کچھ ہوا کچھ دل دھڑکنے کی صدا
شور میں کچھ سن نہیں پاتا ہوں میں

بن کہے آؤں گا جب بھی آؤں گا
منتظر آنکھوں سے گھبراتا ہوں میں

یاد آتی ہے تری سنجیدگی
اور پھر ہنستا چلا جاتا ہوں میں

فاصلہ رکھ کے بھی کیا حاصل ہوا
آج بھی اس کا ہی کہلاتا ہوں میں

چھپ رہا ہوں آئنے کی آنکھ سے
تھوڑا تھوڑا روز دھندلاتا ہوں میں

اپنی ساری شان کھو دیتا ہے زخم
جب دوا کرتا نظر آتا ہوں میں

سچ تو یہ ہے مسترد کر کے اسے
اک طرح سے خود کو جھٹلاتا ہوں میں

آج اس پر بھی بھٹکنا پڑ گیا
روز جس رستے سے گھر آتا ہوں میں