بے تکلف مرا ہیجان بناتا ہے مجھے
سامنے تیرے کہاں بولنا آتا ہے مجھے
وہ اداسی کہ بکھرنے سے نہیں بچ سکتا
اور ترا لمس کہ چنتا چلا جاتا ہے مجھے
اب مرے لوٹ کے آنے کا کوئی وقت نہیں
یوں بھی اب گھر سے سوا کون بلاتا ہے مجھے
گیت ہی صرف لبوں پر ہو تو آ جائے بھی نیند
وہ کوئی اور کہانی بھی سناتا ہے مجھے
قطع کر کے بھی تعلق وہ کہاں چین سے ہے
اس کے اسباب و دلائل بھی گناتا ہے مجھے
خود سے وہ کون سے شکوے ہیں کہ جاتے ہی نہیں
اپنے جیسوں پہ یقیں کیوں نہیں آتا ہے مجھے
اور اک بار ذرا چھیڑ مری روح کے تار
ان سروں میں تو کوئی اور بھی گاتا ہے مجھے
اک ترا درد ہے اچھے ہیں مراسم جس سے
بس وہی ہے کہ جو پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے
میں کسی دوسرے پہلو سے اسے کیوں سوچوں
یوں بھی اچھا ہے وہ جیسا نظر آتا ہے مجھے
ہو سبب کچھ بھی مرے آنکھ بچانے کا مگر
صاف کر دوں کہ نظر کم نہیں آتا ہے مجھے
ناخداؤں نے تو خوش فہمیاں بخشی ہیں فقط
میں ہوں خطرے میں یہ طوفاں ہی بتاتا ہے مجھے
غزل
بے تکلف مرا ہیجان بناتا ہے مجھے
شارق کیفی