EN हिंदी
بدن سے رشتۂ جاں معتبر نہ تھا میرا | شیح شیری
badan se rishta-e-jaan motabar na tha mera

غزل

بدن سے رشتۂ جاں معتبر نہ تھا میرا

اکبر حیدرآبادی

;

بدن سے رشتۂ جاں معتبر نہ تھا میرا
میں جس میں رہتا تھا شاید وہ گھر نہ تھا میرا

قریب ہی سے وہ گزرا مگر خبر نہ ہوئی
دل اس طرح تو کبھی بے خبر نہ تھا میرا

میں مثل سبزۂ بیگانہ جس چمن میں رہا
وہاں کے گل نہ تھے میرے ثمر نہ تھا میرا

نہ روشنی نہ حرارت ہی دے سکا مجھ کو
پرائی آگ میں کوئی شرر نہ تھا میرا

زمیں کو روکش افلاک کر دیا جس نے
ہنر تھا کس کا اگر وہ ہنر نہ تھا میرا

کچھ اور تھا مری تشکیل و ارتقا کا سبب
مدار صرف ہواؤں پہ گر نہ تھا میرا

جو دھوپ دے گیا مجھ کو وہ میرا سورج تھا
جو چھانو دے نہ سکا وہ شجر نہ تھا میرا

نہیں کہ مجھ سے مرے دل نے بے وفائی کی
لہو سے ربط ہی کچھ معتبر نہ تھا میرا

پہنچ کے جو سر منزل بچھڑ گیا مجھ سے
وہ ہم سفر تھا مگر ہم نظر نہ تھا میرا

اک آنے والے کا میں منتظر تو تھا اکبرؔ
ہر آنے والا مگر منتظر نہ تھا میرا