جن کے نصیب میں آب و دانہ کم کم ہوتا ہے
مائل ان کی سمت زمانہ کم کم ہوتا ہے
رستے ہی میں ہو جاتی ہیں باتیں بس دو چار
اب تو ان کے گھر بھی جانا کم کم ہوتا ہے
مشکل ہی سے کر لیتی ہے دنیا اسے قبول
ایسی حقیقت جس میں فسانہ کم کم ہوتا ہے
کبھی جو باتیں عشق کے سال و سن کا حاصل تھیں
اب ان باتوں کا یاد آنا کم کم ہوتا ہے
رند سبھی ساغر پر ساغر چھلکاتے جاتے ہیں
کیوں لبریز مرا پیمانہ کم کم ہوتا ہے
بات پتے کی کر جاتا ہے یوں تو کبھی کبھی
ہوش میں لیکن یہ دیوانہ کم کم ہوتا ہے
کتنی مقدس ہوگی اکبرؔ اس بچے کی پیاس
جس کی اک ٹھوکر سے روانہ زمزم ہوتا ہے
غزل
جن کے نصیب میں آب و دانہ کم کم ہوتا ہے
اکبر حیدرآبادی