دہکتے کچھ خیال ہیں عجیب عجیب سے
کہ ذہن میں سوال ہیں عجیب عجیب سے
تھا آفتاب صبح کچھ تو شام کو کچھ اور
عروج اور زوال ہیں عجیب عجیب سے
ہر ایک شاہراہ پر دکانوں میں سجے
طرح طرح کے مال ہیں عجیب عجیب سے
وہ پاس ہو کے دور ہے تو دور ہو کے پاس
فراق اور وصال ہیں عجیب عجیب سے
نکلنا ان سے بچ کے سہل اس قدر نہیں
قدم قدم پہ جال ہیں عجیب عجیب سے
ادب فقط ادب ہے؟ یا ہے ترجمان زیست؟
مرے یہی سوال ہیں ادیب ادیب سے
غزل
دہکتے کچھ خیال ہیں عجیب عجیب سے
اکبر حیدرآبادی