کئی آوازوں کی آواز ہوں میں
غزل کے واسطے اعزاز ہوں میں
کئی حرفوں سے مل کر بن رہا ہوں
بجائے لفظ کے الفاظ ہوں میں
مری آواز میں صورت ہے میری
کہ اپنے ساز کی آواز ہوں میں
بہت فطری تھا تیرا حرف انکار
ترا غم خوار ہوں دم ساز ہوں میں
کہیں تو حرف آخر ہوں میں اکبرؔ
کسی کا نقطۂ آغاز ہوں میں
غزل
کئی آوازوں کی آواز ہوں میں
اکبر حمیدی