ترا آنچل اشارے دے رہا ہے
فلک روشن ستارے دے رہا ہے
ہوا سہلا رہی ہے اس کے تن کو
وہ شعلہ اب شرارے دے رہا ہے
کھلے ہیں پھول ہر سو جیسے کوئی
ترا صدقہ اتارے دے رہا ہے
گزرنے والے کب تھے ہجر کے دن
مگر عاشق گزارے دے رہا ہے
جنوبی ایشیا کو جیسے اکبرؔ
یہ دن کوئی ادھارے دے رہا ہے
غزل
ترا آنچل اشارے دے رہا ہے
اکبر حمیدی