کافر تھا میں خدا کا نہ منکر دعا کا تھا
لیکن یہاں سوال شکست انا کا تھا
کچھ عشق و عاشقی پہ نہیں میرا اعتقاد
میں جس کو چاہتا تھا حسیں انتہا کا تھا
جل کر گرا ہوں سوکھے شجر سے اڑا نہیں
میں نے وہی کیا جو تقاضا وفا کا تھا
تاریک رات موسم برسات جان زار
گرداب پیچھے سامنے طوفاں ہوا کا تھا
اک عمر بعد بھی نہ شفا ہو سکے تو کیا
رگ رگ میں زہر صدیوں کی آب و ہوا کا تھا
گو راہزن کا وار بھی کچھ کم نہ تھا مگر
جو وار کارگر ہوا وہ رہنما کا تھا
اکبرؔ جہاں میں کار کشائی بتوں کی تھی
اچھا رہا جو ماننے والا خدا کا تھا
غزل
کافر تھا میں خدا کا نہ منکر دعا کا تھا
اکبر حمیدی