کیا ہے خود ہی گراں زیست کا سفر میں نے
کتر لیے تھے کبھی اپنے بال و پر میں نے
یوں اپنی ذات میں اب قید ہو کے بیٹھا ہوں
خود اپنے گرد اٹھائے تھے بام و در میں نے
بدل گئے خط و معنی کئی زبانوں کے
جب اعتراف جنوں کر لیا ہنر میں نے
تو میری تشنہ لبی پر سوال کرتا ہے
سمندروں پہ بنایا تھا اپنا گھر میں نے
جو آج پھر سے مرے بال و پر نکل آئے
تو تیری راہ کے کٹوا دیے شجر میں نے
میں اس کی ذات پہ یوں تبصرہ نہیں کرتا
کہ پورے قد سے تو دیکھا نہیں مگر میں نے
میں چاند رات کا بھٹکا ہوا مسافر تھا
اندھیری رات میں تنہا کیا سفر میں نے
میں بے لباس تو آیا تھا با لباس گیا
یہ زاد راہ کمایا رہ ہنر میں نے
وفور حرف کے ورثے کی آرزو میں سعیدؔ
سنا ہے میرؔ اور مرزاؔ کبھی جگرؔ میں نے

غزل
کیا ہے خود ہی گراں زیست کا سفر میں نے
سعید نقوی