فصیل ذات میں در تو تری عنایت ہے
پر اس میں آمد وحشت مری اضافت ہے
جب آئینے در و دیوار پر نکل آئیں
تو شہر ذات میں رہنا بھی اک قیامت ہے
میں اپنے سارے سوالوں کے جانتا ہوں جواب
مرا سوال مرے ذہن کی شرارت ہے
ذرا سی دیر تو موسم یہ آرزو کا رہے
ابھی بھی قلب و جگر میں ذرا حرارت ہے
میں اپنی ذات سے باہر نکل تو آیا ہوں
اب اپنے آپ سے ملنے میں کیا قباحت ہے
یہ اپنا گھر میں سر راہ لے تو آیا ہوں
بدل لے راستہ سورج تو پھر صراحت ہے
یہ سر زمین تو دریاؤں سے بنی ہے سعیدؔ
یہ اور بات کہ پل سے تمہیں عداوت ہے
غزل
فصیل ذات میں در تو تری عنایت ہے
سعید نقوی