EN हिंदी
میں دوست سے نہ کسی دشمنی سے ڈرتا ہوں | شیح شیری
main dost se na kisi dushmani se Darta hun

غزل

میں دوست سے نہ کسی دشمنی سے ڈرتا ہوں

سعید نقوی

;

میں دوست سے نہ کسی دشمنی سے ڈرتا ہوں
بس اس زبان کی بے پردگی سے دبتا ہوں

میں دور دور سے خود کو اٹھا کے لاتا رہا
کہ ٹوٹ جاؤں تو پھر دور تک بکھرتا ہوں

یہ سب اشارے مرے کام کیوں نہیں آتے
یقیں کی مانگ کو رسم گماں سے بھرتا ہوں

میں اتنی دور نکل آیا شہر ہستی سے
خود اپنی ذات سے اکثر لپٹ کے روتا ہوں

ابھی زمانہ مرے ساتھ چلنے والا ہے
میں اس خیال سے جیتا ہوں اور نہ مرتا ہوں

زمانہ ڈھونڈ رہا ہے مجھے مکانوں میں
میں شہر ذات کے اندھے کنویں میں رہتا ہوں

ہمارے راستے جب سے جدا ہوئے ہیں سعیدؔ
میں اپنی ذات کو محسوس کر تو سکتا ہوں