ورق ورق سے نیا اک جواب مانگوں میں
خود اپنی ذات پہ لکھی کتاب مانگوں میں
یہ خود نوشت تو مجھ کو ادھوری لگتی ہے
جو ہو سکے تو نیا انتساب مانگوں میں
ہم اپنے شوق سے آئے نہ اپنی طرز جیے
اس امتحاں میں نیا اک نصاب مانگوں میں
وہ حق کی پیاس تھی دریا تو بس بہانہ تھا
لب فرات پہ کس سے جواب مانگوں میں
بس ایک لرزہ میرے جسم و جاں پہ ہوتا ہے
شعور ذات سے جب احتساب مانگوں میں
ترے حساب میں ہیں خوش گمانیاں اب بھی
ترے بہانے نیا اک عذاب مانگوں میں
غزل
ورق ورق سے نیا اک جواب مانگوں میں
سعید نقوی