EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ تو خوشبو ہے ہر اک سمت بکھرنا ہے اسے
دل کو کیوں ضد ہے کہ آغوش میں بھرنا ہے اسے

صدا انبالوی




اپنے گلے پہ چلتی چھری کا بھی دھیان رکھ
وہ تیز ہے یا کند ذرا دھار دیکھ لے

صادق




فرصت ہو تو یہ جسم بھی مٹی میں دبا دو
لو پھر میں زماں اور مکاں سے نکل آیا

صادق




گماں نہ تھا کہ لفافے میں خط کے بدلے وہ
لہو لہان تڑپتی زبان رکھ دے گا

صادق




گماں نہ تھا کہ لفافے میں خط کے بدلے وہ
لہو لہان تڑپتی زبان رکھ دے گا

صادق




اس گھومتی زمین کا محور ہی توڑ دو
بے کار گردشوں پہ خفا ہو رہے ہوں کیوں

صادق




کاٹ آگاہیوں کی فصل مگر
ذہن میں کچھ نئے سوال اگا

صادق