پھر سے لہو لہو در و دیوار دیکھ لے
جو بھی دکھائے وقت وہ ناچار دیکھ لے
اپنے گلے پہ چلتی چھری کا بھی دھیان رکھ
وہ تیز ہے یا کند ذرا دھار دیکھ لے
پھر چھوٹنے سے پہلے ہی اپنے وجود کو
موجود بچپنوں میں گرفتار دیکھ لے
گھستا چلا ہے پیٹ میں ہر آدمی کا سر
تجھ سے بھی ہو سکے گا نہ انکار دیکھ لے
یوں روز روز کرتے ادا کاریاں تری
صورت بدل گئی ہے مرے یار دیکھ لے
غزل
پھر سے لہو لہو در و دیوار دیکھ لے
صادق