شعر میں ساتھ روانی کے معانی بھی تو بھر
اے صداؔ قید تو کوزے میں سمندر کر دے
صدا انبالوی
تم ستاروں کے بھروسے پہ نہ بیٹھے رہنا
اپنی تدبیر سے تقدیر بناتے جاؤ
صدا انبالوی
انہیں نہ تولیے تہذیب کے ترازو میں
گھروں میں ان کے نہ چولھے نہ دیپ جلتے ہیں
صدا انبالوی
وقت ہر زخم کا مرہم تو نہیں بن سکتا
درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رلانے والے
صدا انبالوی
وقت ہر زخم کا مرہم تو نہیں بن سکتا
درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رلانے والے
صدا انبالوی
وقت کے ساتھ صداؔ بدلے تعلق کتنے
تب گلے ملتے تھے اب ہاتھ ملایا نہ گیا
صدا انبالوی
وہ تو خوشبو ہے ہر اک سمت بکھرنا ہے اسے
دل کو کیوں ضد ہے کہ آغوش میں بھرنا ہے اسے
صدا انبالوی