EN हिंदी
وہ تو خوشبو ہے ہر اک سمت بکھرنا ہے اسے | شیح شیری
wo to KHushbu hai har ek samt bikharna hai use

غزل

وہ تو خوشبو ہے ہر اک سمت بکھرنا ہے اسے

صدا انبالوی

;

وہ تو خوشبو ہے ہر اک سمت بکھرنا ہے اسے
دل کو کیوں ضد ہے کہ آغوش میں بھرنا ہے اسے

کیوں سدا پہنے وہ تیرا ہی پسندیدہ لباس
کچھ تو موسم کے مطابق بھی سنورنا ہے اسے

اس کو گلچیں کی نگاہوں سے بچائے مولا
وہ تو غنچہ ہے ابھی اور نکھرنا ہے اسے

ہر طرف چاہنے والوں کی بچھی ہیں پلکیں
دیکھیے کون سے رستے سے گزرنا ہے اسے

دل کو سمجھا لیں ابھی سے تو مناسب ہوگا
اک نہ اک روز تو وعدے سے مکرنا ہے اسے

ہم نے تصویر ہے خوابوں کی مکمل کر لی
ایک رنگ حنا باقی ہے جو بھرنا ہے اسے

خواب میں بھی کبھی چھونا تو وضو کر کے صداؔ
کبھی میلا کبھی رسوا نہیں کرنا ہے اسے