منہ آنسوؤں سے اپنا عبث دھو رہے ہو کیوں
ہنستے جہان بیچ کھڑے رو رہے ہو کیوں
آ جاؤ اپنے مکھ سے مکھوٹا اتار کر!
بہروپیوں کے ساتھ سمے کھو رہے ہو کیوں
کیا اس سے ہوگا روح کے زخموں کو فائدہ
ٹوٹے دلوں کی سن کے صدا رو رہے ہو کیوں
اس گھومتی زمین کا محور ہی توڑ دو
بے کار گردشوں پہ خفا ہو رہے ہو کیوں
یہ بوڑھی نسل جب کہ تمہیں مانتی نہیں
اپنے بدن میں اس کا لہو ڈھو رہے ہو کیوں
غزل
منہ آنسوؤں سے اپنا عبث دھو رہے ہو کیوں
صادق