EN हिंदी
منہ آنسوؤں سے اپنا عبث دھو رہے ہو کیوں | شیح شیری
munh aansuon se apna abas dho rahe ho kyun

غزل

منہ آنسوؤں سے اپنا عبث دھو رہے ہو کیوں

صادق

;

منہ آنسوؤں سے اپنا عبث دھو رہے ہو کیوں
ہنستے جہان بیچ کھڑے رو رہے ہو کیوں

آ جاؤ اپنے مکھ سے مکھوٹا اتار کر!
بہروپیوں کے ساتھ سمے کھو رہے ہو کیوں

کیا اس سے ہوگا روح کے زخموں کو فائدہ
ٹوٹے دلوں کی سن کے صدا رو رہے ہو کیوں

اس گھومتی زمین کا محور ہی توڑ دو
بے کار گردشوں پہ خفا ہو رہے ہو کیوں

یہ بوڑھی نسل جب کہ تمہیں مانتی نہیں
اپنے بدن میں اس کا لہو ڈھو رہے ہو کیوں