جسم پر کھردری سی چھال اگا
آنکھ کی پتلیوں میں بال اگا
تیر برسا ہی چاہتے ہیں سنبھل
اپنے ہاتھوں میں ایک ڈھال اگا
کاٹ آگاہیوں کی فصل مگر
ذہن میں کچھ نئے سوال اگا
دوش و فردا کو ڈال گڈھے میں
کھاد سے ان کی روز حال اگا
بڑھی جاتی ہیں مانس کی فصلیں
ان زمینوں پہ کچھ اکال اگا
چکھ چکا ذائقے عروجوں کے
اب زباں پر کوئی زوال اگا

غزل
جسم پر کھردری سی چھال اگا
صادق