پلنگ پر جو کتاب و سنان رکھ دے گا
نئے سفر کے لیے کچھ نشان رکھ دے گا
نشانہ باندھے گا وہ پشت پر مگر جوں ہی
پلٹ کے دیکھو گے ہنس کر کمان رکھ دے گا
خود اس کی ذات ابھی گولیوں کی زد پر ہے
وہ کیسے شہر میں امن و امان رکھ دے گا
بگڑ گیا تو جنونی لہو بھی پی لے گا
جو خوش ہوا تو وہ قدموں پہ جان رکھ دے گا
گماں نہ تھا کہ لفافے میں خط کے بدلے وہ
لہو لہان تڑپتی زبان رکھ دے گا

غزل
پلنگ پر جو کتاب و سنان رکھ دے گا
صادق