EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دور تک ایک خلا ہے سو خلا کے اندر
صرف تنہائی کی صورت ہی نظر آئے گی

صابر ظفر




گزارتا ہوں جو شب عشق بے معاش کے ساتھ
تو صبح اشک مرے ناشتے پہ گرتے ہیں

صابر ظفر




گزارتا ہوں جو شب عشق بے معاش کے ساتھ
تو صبح اشک مرے ناشتے پہ گرتے ہیں

صابر ظفر




ہم اتنا چاہتے تھے ایک دوسرے کو ظفرؔ
میں اس کی اور وہ میری مثال ہو کے رہا

صابر ظفر




ہر درجے پہ عشق کر کے دیکھا
ہر درجے میں بے وفائیاں ہیں

صابر ظفر




ہر شخص بچھڑ چکا ہے مجھ سے
کیا جانیے کس کو ڈھونڈھتا ہوں

صابر ظفر




اک آدھ بار تو جاں وارنی ہی پڑتی ہے
محبتیں ہوں تو بنتا نہیں بہانہ کوئی

صابر ظفر