کام اتنی ہی فقط راہ گزر آئے گی
ہم سفر جائے گا اور یاد سفر آئے گی
دور تک ایک خلا ہے سو خلا کے اندر
صرف تنہائی کی صورت ہی نظر آئے گی
میں نے سوچا تھا مگر یہ تو نہیں سوچا تھا
تیرگی روح کے آنگن میں اتر آئے گی
جاگنے والا کوئی سویا ہمیشہ کے لیے
اب تو ماتم ہی کرے گی جو سحر آئے گی
اک عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
اور کچھ روز میں یہ بھی نہ ادھر آئے گی
ہائے کیا لوگ تھے زنداں میں بھی ہم سے پہلے
اک دن اس یاد کی صورت بھی بکھر آئے گی
پڑھ رہا ہوں میں ظفرؔ اس کے بچھڑنے کی خبر
اور کچھ روز میں اپنی بھی خبر آئے گی

غزل
کام اتنی ہی فقط راہ گزر آئے گی
صابر ظفر