نگاہ کرنے میں لگتا ہے کیا زمانہ کوئی
پیمبری نہ سہی دکھ پیمبرانہ کوئی
اک آدھ بار تو جاں وارنی ہی پڑتی ہے
محبتیں ہوں تو بنتا نہیں بہانہ کوئی
میں تیرے دور میں زندہ ہوں تو یہ جانتا ہے
ہدف تو میں تھا مگر بن گیا نشانہ کوئی
اب اس قدر بھی یہاں ظلم کو پناہ نہ دو
یہ گھر گرا ہی نہ دے دست غائبانہ کوئی
اجالتا ہوں میں نعلین پائے لخت جگر
کہ مدرسے کو چلا علم کا خزانہ کوئی
غزل
نگاہ کرنے میں لگتا ہے کیا زمانہ کوئی
صابر ظفر