یہ سوچ کے راکھ ہو گیا ہوں
میں شام سے صبح تک جلا ہوں
جس دل میں پناہ ڈھونڈھتا تھا
اب اس سے پناہ مانگتا ہوں
پہلے بھی خدا کو مانتا تھا
اور اب بھی خدا کو مانتا ہوں
وہ جاگ رہا ہو شاید اب تک
یہ سوچ کے میں بھی جاگتا ہوں
اے میرا خیال رکھنے والے
کیا میں ترے ذہن میں بسا ہوں
مرتا ہوں کہ مر مٹوں گا آخر
جینے کو تو عمر بھر جیا ہوں
ہر شخص بچھڑ چکا ہے مجھ سے
کیا جانیے کس کو ڈھونڈھتا ہوں
ہے مجھ سے ہی زندگی عبارت
میں زیست کا تلخ تجربہ ہوں
کیا سمجھے گا کوئی مجھ کو صابرؔ
میں ذات سے اپنی ماورا ہوں
غزل
یہ سوچ کے راکھ ہو گیا ہوں
صابر ظفر