قسمت میں اگر جدائیاں ہیں
پھر کیوں تری یادیں آئیاں ہیں
یاں جینے کی صورتیں ہیں جتنی
وہ صورتیں سب پرائیاں ہیں
فریاد کناں نہیں بس اک میں
چاروں ہی طرف دہائیاں ہیں
ہر درجے پہ عشق کر کے دیکھا
ہر درجے میں بے وفائیاں ہیں
اک تیرا برا کبھی نہ چاہا
گو ہم میں بہت برائیاں ہیں
تقریب وصال یار ہے کیا
کوچے میں ترے صفائیاں ہیں
اس نے بھی کسر کوئی کوئی چھوڑی
ہم نے بھی بہت سنائیاں ہیں
اب اور کہیں کا رخ کریں آپ
اس جگ میں تو جگ ہنسائیاں ہیں
کیسے کریں بندگی ظفرؔ واں
بندوں کی جہاں خدائیاں ہیں
غزل
قسمت میں اگر جدائیاں ہیں
صابر ظفر