محبتیں تھیں کچھ ایسی وصال ہو کے رہا
وہ خوش خیال مرا ہم خیال ہو کے رہا
ہر ایک پردے میں دریافت اس کا حسن کیا
پھر اس خزانے سے میں مالا مال ہو کے رہا
لہو کی لہر میں شادابیوں کی شدت سے
مزاج اس کا مرے حسب حال ہو کے رہا
کرم کا سلسلہ جو منقطع تھا غفلت سے
بحال کیسے نہ ہوتا بحال ہو کے رہا
ہم اتنا چاہتے تھے ایک دوسرے کو ظفرؔ
میں اس کی اور وہ میری مثال ہو کے رہا
غزل
محبتیں تھیں کچھ ایسی وصال ہو کے رہا
صابر ظفر