EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

نہ نیند آنکھوں میں باقی نہ انتظار رہا
یہ حال تھا تو کوئی نیک کام کیا کرتے

رئیس صدیقی




ترے سلوک کا غم صبح و شام کیا کرتے
ذرا سی بات پہ جینا حرام کیا کرتے

رئیس صدیقی




ملنے کو یوں تو ملتے تھے کچھ لوگ روز ہی
لیکن دلوں کے بیچ میں پردہ ضرور تھا

راج کھیتی




اب ہے دعا یہ اپنی ہر شام ہر سحر کو
یا وہ بدن سے لپٹے یا جان تن سے نکلے

رجب علی بیگ سرور




دم تکفین بھی گر یار آوے
تو نکلیں ہاتھ باہر یہ کفن سے

رجب علی بیگ سرور




دم تکفین بھی گر یار آوے
تو نکلیں ہاتھ باہر یہ کفن سے

رجب علی بیگ سرور




کیا یہی تھی شرط کچھ انصاف کی اے تند خو
جو بھلا ہو آپ سے اس سے برائی کیجیے

رجب علی بیگ سرور