اس طرح آہ کل ہم اس انجمن سے نکلے
فصل بہار میں جوں بلبل چمن سے نکلے
آتی لپٹ ہے جیسی اس زلف عنبریں سے
کیا تاب ہے جو وہ بو مشک ختن سے نکلے
تم کو نہ ایک پر بھی رحم آہ شب کو آیا
کیا کیا ہی آہ و نالے اپنے دہن سے نکلے
اب ہے دعا یہ اپنی ہر شام ہر سحر کو
یا وہ بدن سے لپٹے یا جان تن سے نکلے
تو جانیو مقرر اس کو سرورؔ عاشق
کچھ درد کی سی حالت جس کے سخن سے نکلے
غزل
اس طرح آہ کل ہم اس انجمن سے نکلے
رجب علی بیگ سرور