EN हिंदी
ترے سلوک کا غم صبح و شام کیا کرتے | شیح شیری
tere suluk ka gham subh-o-sham kya karte

غزل

ترے سلوک کا غم صبح و شام کیا کرتے

رئیس صدیقی

;

ترے سلوک کا غم صبح و شام کیا کرتے
ذرا سی بات پہ جینا حرام کیا کرتے

کہ بے ادب کا بھلا احترام کیا کرتے
جو ناستک تھا اسے رام رام کیا کرتے

وہ کوئی میرؔ ہوں غالبؔ ہوں یا انیسؔ و دبیرؔ
سخن وری سے بڑا کوئی کام کیا کرتے

نہ نیند آنکھوں میں باقی نہ انتظار رہا
یہ حال تھا تو کوئی نیک کام کیا کرتے

مزاج میں تھا تکبر تو حرکتوں میں غرور
پھر ایسے شخص کو ہم بھی سلام کیا کرتے

رئیسؔ خوئے وفا نے ہمیں رلایا ہے
پھر اس چلن کو بھلا ہم بھی عام کیا کرتے