کروں شکوہ نہ کیوں چرخ کہن سے
کہ فرقت ڈالی تجھ سے گل بدن سے
تری فرقت کا یہ صدمہ پڑا یار
زباں ناآشنا ہو گئی سخن سے
دم تکفین بھی گر یار آوے
تو نکلیں ہاتھ باہر یہ کفن سے
کھلا ہے تختۂ لالہ جگر میں
ہمیں کیا کام اب سیر چمن سے
نہ پہنچا گوش تک اک تیرے ہیہات
ہزاروں نالہ نکلا اس دہن سے
دماغ جاں میں ہے یہ بوئے کاکل
کہ نفرت ہو گئی مشک ختن سے
جگر پر لاکھ تیشے غم کے نت ہیں
رہی نسبت ہمیں کیا کوہ کن سے
سرورؔ آتا ہے جب وہ یاد دلبر
تو جاں بس میری ہو جاتی ہے سن سے
غزل
کروں شکوہ نہ کیوں چرخ کہن سے
رجب علی بیگ سرور