EN हिंदी
کروں شکوہ نہ کیوں چرخ کہن سے | شیح شیری
karun shikwa na kyun charKH-e-kuhan se

غزل

کروں شکوہ نہ کیوں چرخ کہن سے

رجب علی بیگ سرور

;

کروں شکوہ نہ کیوں چرخ کہن سے
کہ فرقت ڈالی تجھ سے گل بدن سے

تری فرقت کا یہ صدمہ پڑا یار
زباں ناآشنا ہو گئی سخن سے

دم تکفین بھی گر یار آوے
تو نکلیں ہاتھ باہر یہ کفن سے

کھلا ہے تختۂ لالہ جگر میں
ہمیں کیا کام اب سیر چمن سے

نہ پہنچا گوش تک اک تیرے ہیہات
ہزاروں نالہ نکلا اس دہن سے

دماغ جاں میں ہے یہ بوئے کاکل
کہ نفرت ہو گئی مشک ختن سے

جگر پر لاکھ تیشے غم کے نت ہیں
رہی نسبت ہمیں کیا کوہ کن سے

سرورؔ آتا ہے جب وہ یاد دلبر
تو جاں بس میری ہو جاتی ہے سن سے