EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کس نے دیکھے ہیں تری روح کے رستے ہوئے زخم
کون اترا ہے ترے قلب کی گہرائی میں

رئیس امروہوی




پہلے بھی خراب تھی یہ دنیا
اب اور خراب ہو گئی ہے

رئیس امروہوی




پہلے یہ شکر کہ ہم حد ادب سے نہ بڑھے
اب یہ شکوہ کہ شرافت نے کہیں کا نہ رکھا

رئیس امروہوی




صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہے
صدیوں سے انتظار سحر کر رہے ہیں ہم

رئیس امروہوی




صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہے
صدیوں سے انتظار سحر کر رہے ہیں ہم

رئیس امروہوی




صرف تاریخ کی رفتار بدل جائے گی
نئی تاریخ کے وارث یہی انساں ہوں گے

رئیس امروہوی




ٹہنی پہ خموش اک پرندہ
ماضی کے الٹ رہا ہے دفتر

رئیس امروہوی